تفسير ابن كثير



سورۃ البقرة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا وَلَا تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلَّا تَرْتَابُوا إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ وَإِنْ تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ[282]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب آپس میں ایک مقرر مدت تک قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو اور ایک لکھنے والا تمھارے درمیان انصاف کے ساتھ لکھے اور کوئی لکھنے والا اس سے انکار نہ کرے کہ لکھے جیسے اللہ نے اسے سکھایا ہے، سو اسے لازم ہے کہ لکھ دے اور وہ شخص لکھوائے جس کے ذمے حق (قرض) ہو، اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کرے۔ پھر اگر وہ شخص جس کے ذمے حق (قرض) ہے، بے سمجھ یا کمزور ہے، یا وہ طاقت نہیں رکھتا کہ خود لکھوائے تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ لکھوا دے۔ اور اپنے مردوں میں سے دو گواہوں کو گواہ بنا لو، پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ان لوگوں میں سے جنھیں تم گواہوں میں سے پسند کرتے ہو، (اس لیے) کہ دونوں میں سے ایک بھول جائے تو ان میں سے ایک دوسری کو یاد دلا دے۔ اور گواہ جب بھی بلائے جائیں انکار نہ کریں۔ اور اس سے مت اکتائو وہ چھوٹا (معاملہ) ہو یا بڑا کہ اسے اس کی مدت تک لکھو۔ یہ کام اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف والا اور شہادت کو زیادہ درست رکھنے والا ہے اور زیادہ قریب ہے کہ تم شک میں نہ پڑو، مگر یہ کہ نقد سودا ہو، جسے تم آپس میں لیتے دیتے ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اسے نہ لکھو۔ آپس میں خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لو، اور نہ کسی لکھنے والے کو تکلیف دی جائے اور نہ کسی گواہ کو اور اگر ایسا کرو گے تو بلاشبہ یہ تم میں (پائی جانے والی) بہت بڑی نافرمانی ہے اور اللہ سے ڈرو اور اللہ تمھیں سکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والاہے۔ [282]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اے ایمان والو! جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرر پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور لکھنے والے کو چاہئے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے، کاتب کو چاہئے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے اسے سکھایا ہے، پس اسے بھی لکھ دینا چاہئے اور جس کے ذمہ حق ہو وہ لکھوائے اور اپنے اللہ تعالیٰ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور حق میں سے کچھ گھٹائے نہیں، ہاں جس شخص کے ذمہ حق ہے وہ اگر نادان ہو یا کمزور ہو یا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوا دے اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گوہوں میں سے پسند کر لو تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے اور گواہوں کو چاہئے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی اور شق و شبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ معاملہ نقد تجارت کی شکل میں ہو جو آپس میں تم لین دین کر رہے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں۔ خرید و فروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کر لیا کرو اور ﴿یاد رکھو کہ﴾ نہ تو لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو اور اگر تم یہ کرو تو یہ تمہاری کھلی نافرمانی ہے، اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے [282]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لئے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والا تم میں (کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ) انصاف سے لکھے نیز لکھنے والا جیسا اسے خدا نے سکھایا ہے لکھنے سے انکار بھی نہ کرے اور دستاویز لکھ دے۔ اور جو شخص قرض لے وہی (دستاویز کا) مضمون بول کر لکھوائے اور خدا سے کہ اس کا مالک ہے خوف کرے اور زر قرض میں سے کچھ کم نہ لکھوائے۔ اور اگر قرض لینے والا بےعقل یا ضعیف ہو یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتا ہو تو جو اس کا ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے۔ اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے کے) گواہ کرلیا کرو۔ اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو (کافی ہیں) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلادے گی۔ اور جب گواہ (گواہی کے لئے طلب کئے جائیں تو انکار نہ کریں۔ اور قرض تھوڑا ہو یا بہت اس (کی دستاویز) کے لکھنے میں کاہلی نہ کرنا۔ یہ بات خدا کے نزدیک نہایت قرین انصاف ہے اور شہادت کے لئے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے۔ اس سے تمہیں کسی طرح کا شک وہ شبہ بھی نہیں پڑے گا۔ ہاں اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو تو اگر (ایسے معاملے کی) دستاویز نہ لکھوتو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ اور جب خرید وفروخت کیا کرو تو بھی گواہ کرلیا کرو۔ اور کاتب دستاویز اور گواہ (معاملہ کرنے والوں کا) کسی طرح نقصان نہ کریں۔ اگر تم (لوگ) ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے۔ اور خدا سے ڈرو اور (دیکھو کہ) وہ تم کو (کیسی مفید باتیں) سکھاتا ہے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے [282]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 282،

حفظ قرآن اور لین دین میں گواہ اور لکھنے کی تاکید ٭٭

یہ آیت قرآن کریم کی تمام آیتوں سے بڑی ہے، سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ قرآن کی سب سے بڑی آیت یہی «آیت الدین» ہے، [تفسیر ابن جریر الطبری:41/6] ‏‏‏‏ یہ آیت جب نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلے انکار کرنے والے آدم علیہ السلام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور قیامت تک کی ان کی تمام اولاد نکالی، آپ علیہ السلام نے اپنی اولاد کو دیکھا، ایک شخص کو خوب تروتازہ اور نورانی دیکھ کر پوچھا کہ الٰہی ان کا کیا نام ہے؟ جناب باری نے فرمایا یہ تمہارے لڑکے داؤد علیہ السلام ہیں، پوچھا اللہ ان کی عمر کیا ہے؟ فرمایا ساٹھ سال، کہا اے اللہ اس کی عمر کچھ اور بڑھا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں، ہاں اگر تم اپنی عمر میں سے انہیں کچھ دینا چاہو تو دے دو، کہا اے اللہ میری عمر میں سے چالیس سال اسے دئیے جائیں، چنانچہ دے دئیے گئے، آدم علیہ السلام کی اصلی عمر ایک ہزار سال کی تھی، اس لین دین کو لکھا گیا اور فرشتوں کو اس پر گواہ کیا گیا آدم علیہ السلام کی موت جب آئی، کہنے لگے اے اللہ میری عمر میں سے تو ابھی چالیس سال باقی ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ تم نے اپنے لڑکے داؤد علیہ السلام کو دے دئیے ہیں، تو آدم علیہ السلام نے انکار کیا جس پر وہ لکھا ہوا دکھایا گیا اور فرشتوں کی گواہی گزری، دوسری روایت میں ہے کہ آدم علیہ السلام کی عمر پھر اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار پوری کی اور داؤد علیہ السلام کی ایک سو سال کی۔ [مسند احمد:251/1:حسن لغیرہ] ‏‏‏‏ لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کے راوی علی بن زین بن جدعان کی حدیثیں منکر ہوتی ہیں، مستدرک حاکم میں بھی یہ روایت ہے۔ [مستدرک حاکم:586/2] ‏‏‏‏
974

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایماندار بندوں کو ارشاد فرمایا ہے کہ وہ ادھار کے معاملات لکھ لیا کریں تاکہ رقم اور معیاد خوب یاد رہے، گواہ کو بھی غلطی نہ ہو، اس سے ایک وقت مقررہ کیلئے ادھار دینے کا جواز بھی ثابت ہوا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ معیاد مقرر کر کے قرض کے لین دین کی اجازت اس آیت سے بخوبی ثابت ہوتی ہے، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ مدینے والوں کا ادھار لین دین دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ناپ تول یا وزن مقرر کر لیا کرو، بھاؤ تاؤ چکا لیا کرو اور مدت کا بھی فیصلہ کر لیا کرو۔ [صحیح بخاری:2239:صحیح] ‏‏‏‏
975

قرآن حکیم کہتا ہے کہ لکھ لیا کرو اور حدیث شریف میں ہے کہ ہم ان پڑھ امت ہیں، نہ لکھنا جانیں نہ حساب، [صحیح بخاری:1913] ‏‏‏‏ ان دونوں میں تطبیق اس طرح ہے کہ دینی مسائل اور شرعی امور کے لکھنے کی تو مطلق ضرورت ہی نہیں خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بے حد آسان اور بالکل سہل کر دیا گیا۔ قرآن کا حفظ اور احادیث کا حفظ قدرتاً لوگوں پر سہل ہے، لیکن دنیوی چھوٹی بڑی لین دین کی باتیں اور وہ معاملات جو ادھار سدھار ہوں، ان کی بابت بیشک لکھ لینے کا حکم ہوا اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ حکم بھی وجوباً نہیں پس نہ لکھنا دینی امور کا ہے اور لکھ لینا دنیوی کام کا ہے۔ بعض لوگ اس کے وجوب کی طرف بھی گئے ہیں،

ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو ادھار دے وہ لکھ لے اور جو بیچے وہ گواہ کر لے، ابوسلیمان مرعشی رحمہ اللہ جنہوں نے سیدنا کعب رضی اللہ عنہما کی صحبت بہت اٹھائی تھی انہوں نے ایک دن اپنے پاس والوں سے کہا اس مظلوم کو بھی جانتے ہو جو اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے اور اس کی دعا قبول نہیں ہوتی لوگوں نے کہا یہ کس طرح؟ فرمایا یہ وہ شخص ہے جو ایک مدت کیلئے ادھار دیتا ہے اور نہ گواہ رکھتا ہے نہ لکھت پڑھت کرتا ہے۔
976

پھر مدت گزرنے پر تقاضا کرتا ہے اور دوسرا شخص انکار کر جاتا ہے، اب یہ اللہ سے دعا کرتا ہے لیکن پروردگار قبول نہیں کرتا اس لیے کہ اس نے کام اس کے فرمان کیخلاف کیا ہے اور اپنے رب کا نافرمان ہوا ہے، حضرت ابوسعید شعبی ربیع بن انس حسن ابن جریج ابن زید رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا قول ہے کہ پہلے تو یہ واجب تھا پھر وجوب منسوخ ہو گیا، [تفسیر ابن جریر الطبری:47/6] ‏‏‏‏ اور فرمایا گیا کہ اگر ایک دوسرے پر اطمینان ہو تو جسے امانت دی گئی ہے اسے چاہیئے کہ ادا کر دے، اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے، گو یہ واقعہ اگلی امت کا ہے لیکن تاہم ان کی شریعت ہماری شریعت ہے۔ جب تک ہماری شریعت پر اسے انکار نہ ہو اس واقعہ میں جسے اب ہم بیان کرتے ہیں لکھت پڑھت کے نہ ہونے اور گواہ مقرر نہ کئے جانے پر شارع علیہ السلام نے انکار نہیں کیا۔
977

مسند میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کے ایک شخص نے دوسرے شخص سے ایک ہزار دینار ادھار مانگے، اس نے کہا گواہ لاؤ، جواب دیا کہ اللہ کی گواہی کافی ہے، کہا ضمانت لاؤ، جواب دیا اللہ کی ضمانت کافی ہے، کہا تو نے سچ کہا، ادائیگی کی معیاد مقرر ہو گئی اور اس نے اسے ایک ہزار دینار گن دئیے، اس نے تری کا سفر کیا اور اپنے کام سے فارغ ہوا، جب معیاد پوری ہونے کو آئی تو یہ سمندر کے قریب آیا کہ کوئی جہاز کشتی ملے تو اس میں بیٹھ جاؤں اور رقم ادا کر آؤں، لیکن کوئی جہاز نہ ملا، جب دیکھا کہ وقت پر نہیں پہنچ سکتا تو اس نے ایک لکڑی لی، اسے بیچ سے کھوکھلی کر لی اور اس میں ایک ہزار دینار رکھ دئیے اور ایک پرچہ بھی رکھ دیا، پھر منہ کو بند کر دیا اور اللہ سے دعا کی کہ پروردگار تجھے خوب علم ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لیے اس نے مجھ سے ضمانت طلب کی، میں نے تجھے ضامن کیا اور وہ اس پر خوش ہو گیا، گواہ مانگا، میں نے گواہ بھی تجھی کو رکھا، وہ اس پر بھی خوش ہو گیا، اب جبکہ اپنا قرض ادا کر آؤں لیکن کوئی کشتی نہیں ملی، اب میں اس رقم کو تجھے سونپتا ہوں اور سمندر میں ڈال دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ رقم اسے پہنچا دے، پھر اس لکڑی کو سمندر میں ڈال دیا اور خود چلا گیا لیکن پھر بھی کشتی کی تلاش میں رہا کہ مل جائے تو جاؤں، یہاں تو یہ ہوا، وہاں جس شخص نے اسے قرض دیا تھا، جب اس نے دیکھا کہ وقت پورا ہوا اور آج اسے آ جانا چاہیئے تھا، تو وہ بھی دریا کنارے آن کھڑا ہوا کہ وہ آئے گا اور میری رقم مجھے دیدے گا یا کسی کے ہاتھ بھجوائے گا، مگر جب شام ہونے کو آئی اور کوئی کشتی اس کی طرف سے نہیں آئی تو یہ واپس لوٹا،
978

کنارے پر ایک لکڑی دیکھی تو یہ سمجھ کر کہ خالی ہاتھ تو جا ہی رہا ہوں، اس لکڑی کو بھی لے چلوں، پھاڑ کر سکھا لوں گا جلانے کے کام آئے گی، گھر پہنچ کر جب اسے چیرتا ہے تو کھنا کھن بجتی ہوئی اشرفیاں نکلتی ہیں، گنتا ہے تو پوری ایک ہزار ہیں، وہیں پرچہ پر نظر پڑتی ہے، اسے بھی اٹھا کر پڑھ لیتا ہے، پھر ایک دن وہی شخص آتا ہے اور ایک ہزار دینار پیش کر کے کہتا ہے یہ لیجئے آپ کی رقم، معاف کیجئے گا میں نے ہر چند کوشش کی کہ وعدہ خلافی نہ ہو لیکن کشتی کے نہ ملنے کی وجہ سے مجبور ہو گیا اور دیر لگ گئی، آج کشتی ملی، آپ کی رقم لے کر حاضر ہوا، اس نے پوچھا کیا میری رقم آپ نے بھجوائی بھی ہے؟ اس نے کہا میں کہہ چکا ہوں کہ مجھے کشتی نہ ملی تھی، اس نے کہا آپ اپنی رقم لے کر خوش ہو کر چلے جاؤ، آپ نے جو رقم لکڑی میں ڈال کر اسے توکل علی اللہ ڈالی تھی، اسے اللہ نے مجھ تک پہنچا دیا اور میں نے اپنی رقم پوری وصول پالی۔ [صحیح بخاری:2291] ‏‏‏‏ اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے، صحیح بخاری شریف میں سات جگہ یہ حدیث آئی ہے۔ [صحیح بخاری:1498] ‏‏‏‏
979

پھر فرمان ہے کہ لکھنے والا عدل و حق کے ساتھ لکھے، کتابت میں کسی فریق پر ظلم نہ کرے، ادھر ادھر کچھ کمی بیشی نہ کرے بلکہ لین دین والے دونوں متفق ہو کر جو لکھوائیں وہی لکھے، لکھا پڑھا شخص معاملہ کو لکھنے سے انکار نہ کرے، جب اسے لکھنے کو کہا جائے لکھ دے، جس طرح اللہ کا یہ احسان اس پر ہے کہ اس نے اسے لکھنا سکھایا اسی طرح جو لکھنا نہ جانتے ہوں ان پر یہ احسان کرے اور ان کے معاملہ کو لکھ دیا کرے۔ حدیث میں ہے یہ بھی صدقہ ہے کہ کسی کام کرنے والے کا ہاتھ بٹا دو، کسی گرے پڑے کا کام کر دو، [صحیح بخاری:2518] ‏‏‏‏ اور حدیث میں ہے جو علم کو جان کر پھر اُسے چھپائے، قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی، [سنن ابوداود:3658، قال الشيخ الألباني:حسن صحیح] ‏‏‏‏

مجاہد رحمہ اللہ اور عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں کاتب پر لکھ دینا اس آیت کی رو سے واجب ہے۔ جس کے ذمہ حق ہو وہ لکھوائے اور اللہ سے ڈرے، نہ کمی بیشی کرے نہ خیانت کرے۔ اگر یہ شخص بےسمجھ ہے اسراف وغیرہ کی وجہ سے روک دیا گیا ہے یا کمزور ہے یعنی بچہ ہے یا حواس درست نہیں یا جہالت اور کندذہنی کی وجہ سے لکھوانا بھی نہیں جانتا تو جو اس کا والی اور بڑا ہو، وہ لکھوائے۔
980

پھر فرمایا کتابت کے ساتھ شہادت بھی ہونی چاہیئے تاکہ معاملہ خوب مضبوط اور بالکل صاف ہو جائے۔ دو عورتوں کو ایک عورت کے قائم مقام کرنا عورت کے نقصان کے سبب ہے، جیسے صحیح مسلم شریف میں حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عورتو صدقہ کرو اور بکثرت استغفار کرتی رہو، میں نے دیکھا ہے کہ جہنم میں تم بہت زیادہ تعداد میں جاؤ گی، ایک عورت نے پوچھا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لعنت زیادہ بھیجا کرتی ہو اور اپنے خاوندوں کی ناشکری کرتی ہو، میں نے نہیں دیکھا کہ باوجود عقل دین کی کمی کے، مردوں کی عقل مارنے والی تم سے زیادہ کوئی ہو، اس نے پھر پوچھا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں دین کی عقل کی کمی کیسے ہے؟ فرمایا عقل کی کمی تو اس سے ظاہر ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے اور دین کی کمی یہ ہے کہ ایام حیض میں نہ نماز ہے نہ روزہ۔ [صحیح مسلم:79:صحیح] ‏‏‏‏
981

گواہوں کی نسبت فرمایا کہ یہ شرط ہے کہ وہ عدالت والے ہوں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب ہے کہ جہاں کہیں قرآن شریف میں گواہ کا ذِکر ہے وہاں عدالت کی شرط ضروری ہے، گو وہاں لفظوں میں نہ ہو اور جن لوگوں نے ان کی گواہی رَد کر دی ہے جن کا عادل ہونامعلوم نہ ہو ان کی دلیل بھی یہی آیت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گواہ عادل اور پسندیدہ ہونا چاہیئے۔ دو عورتیں مقرر ہونے کی حکمت بھی بیان کر دی گئی ہے کہ اگر ایک گواہی کو بھول جائے تو دوسری یاد دلا دے کی «فَتُذَکَّرَ» کی دوسری قرأت «فَتُذَکِّرَ» بھی ہے، جو لوگ کہتے ہیں کہ اس کی شہادت اس کے ساتھ مل کر شہادت مرد کے کر دے گی انہوں نے مکلف کیا ہے، صحیح بات پہلی ہی ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
982

گواہوں کو چاہیئے کہ جب وہ بلائے جائیں انکار نہ کریں یعنی جب ان سے کہا جائے کہ آؤ اس معاملہ پر گواہ رہو تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیئے جیسے کاتب کی بابت بھی یہی فرمایا گیا ہے، یہاں سے یہ بھی فائدہ حاصل کیا گیا ہے کہ گواہ رہنا بھی فرض کفایہ ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ جمہور کا مذہب یہی ہے [تفسیر ابن جریر الطبری:68/6] ‏‏‏‏ اور یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ جب گواہ گواہی دینے کیلئے طلب کیا جائے یعنی جب اس سے واقعہ پوچھا جائے تو وہ خاموش نہ رہے، چنانچہ ابومجلز مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ جب گواہ بننے کیلئے بلائے جاؤ تو تمہیں اختیار ہے خواہ گواہ بننا پسند کرو یا نہ کرو یا نہ جاؤ لیکن جب گواہ ہو چکو پھر گواہی دینے کیلئے جب بلایا جائے تو ضرور جانا پڑے گا، [تفسیر ابن ابی حاتم:181/3] ‏‏‏‏ صحیح مسلم اور سنن کی حدیث میں ہے اچھے گواہ وہ ہیں جو بے پوچھے ہی گواہی دے دیا کریں، [صحیح مسلم:1719:صحیح] ‏‏‏‏ بخاری و مسلم کی دوسری حدیث میں جو آیا ہے کہ بدترین گواہ وہ ہیں جن سے گواہی طلب نہ کی جائے اور وہ گواہی دینے بیٹھ جائیں، [صحیح بخاری:6428:صحیح] ‏‏‏‏ اور وہ حدیث جس میں ہے کہ پھر ایسے لوگ آئیں گے جن کی قسمیں گواہیوں پر اور گواہیاں قسموں پر پیش پیش رہیں گی، [صحیح بخاری:2652:صحیح] ‏‏‏‏ اور روایت میں آیا ہے کہ ان سے گواہی نہ لی جائے گی تاہم وہ گواہی دیں گے، [صحیح بخاری:2651:صحیح] ‏‏‏‏ تو یاد رہے [ مذمت جھوٹی گواہی دینے والوں کی اور تعریف سچی گواہی دینے والوں کی ہے ] ‏‏‏‏ اور یہی ان مختلف احادیث میں تطبیق ہے،

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں آیت دونوں حالتوں پر شامل ہے، یعنی گواہی دینے کیلئے بھی اور گواہ رہنے کیلئے بھی انکار نہ کرنا چاہیئے۔
983

پھر فرمایا چھوٹا معاملہ ہو یا بڑا لکھنے سے کسمساؤ نہیں بلکہ مدت وغیرہ بھی لکھ لیا کرو۔ ہمارا یہ حکم پورے عدل والا اور بغیر شک و شبہ فیصلہ ہو سکتا ہے۔ پھر فرمایا جبکہ نقد خرید و فروخت ہو رہی ہو تو چونکہ باقی کچھ نہیں رہتا اس لیے اگر نہ لکھا جائے تو کسی جھگڑے کا احتمال نہیں، لہٰذا کتابت کی شرط تو ہٹا دی گئی، اب رہی شہادت تو حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں کہ ادھار ہو یا نہ ہو، ہر حال میں اپنے حق پر گواہ کر لیا کرو، دیگر بزرگوں سے مروی ہے کہ «فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ» [ البقرہ: 283 ] ‏‏‏‏ فرما کر اس حکم کو بھی ہٹا دیا
984

یہ بھی ذہن نشین رہے کہ جمہور کے نزدیک یہ حکم واجب نہیں بلکہ استحباب کے طور پر اچھائی کیلئے ہے اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے جس سے صاف ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید و فروخت کی جبکہ اور کوئی گواہ شاہد نہ تھا، چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی سے ایک گھوڑا خریدا اور اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت خانہ کی طرف رقم لینے کیلئے چلا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ذرا جلد نکل آئے اور وہ آہستہ آہستہ آ رہا تھا، لوگوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ گھوڑا بک گیا ہے، انہوں نے قیمت لگانی شروع کی یہاں تک کہ جتنے داموں اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ بیچا تھا اس سے زیادہ دام لگ گئے، اعرابی کی نیت پلٹی اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دے کر کہا یا تو گھوڑا اسی وقت نقد دے کر لے لو یا میں اور کے ہاتھ بیچ دیتا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سُن کر رکے اور فرمانے لگے تو تو اسے میرے ہاتھ بیچ چکا ہے پھر یہ کیا کہہ رہا ہے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم میں نے تو نہیں بیچا، صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غلط کہتا ہے، میرے تیرے درمیان معاملہ طے ہو چکا ہے، اب لوگ ادھر اُدھر سے بیچ میں بولنے لگے، اس گنوار نے کہا اچھا تو گواہ لائیے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ بیچ دیا، مسلمانوں نے ہر چند کہا کہ بدبخت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے پیغمبر ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے تو حق ہی نکلتا ہے، لیکن وہ یہی کہے چلا جائے کہ لاؤ گواہ پیش کرو، اتنے میں سیدنا خزیمہ رضی اللہ عنہ آ گئے اور اعرابی کے اس قول کو سن کر فرمانے لگے میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے بیچ دیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ تو فروخت کر چکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو کیسے شہادت دے رہا ہے، سیدنا خزیمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق اور سچائی کی بنیاد پر یہ شہادت دی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج سے خزیمہ رضی اللہ عنہ کی گواہی دو گواہوں کے برابر ہے۔ [سنن ابوداود:3607، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏
985

پس اس حدیث سے خرید و فروخت پر گواہی دو گواہوں کی ضروری نہ رہی، لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ تجارت پر بھی دو گواہ ہوں، کیونکہ ابن مردویہ اور حاکم میں ہے کہ تین شخص ہیں جو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں کی جاتی، ایک تو وہ کہ جس کے گھر بداخلاق عورت ہو اور وہ اسے طلاق نہ دے، دوسرا وہ شخص جو کسی یتیم کا مال اس کی بلوغت کے پہلے اسے سونپ دے، تیسرا وہ شخص جو کسی کو مال قرض دے اور گواہ نہ رکھے، [مستدرک حاکم:302/2] ‏‏‏‏ امام حاکم اسے شرط بخاری و مسلم پر صحیح بتلاتے ہیں، بخاری مسلم اس لیے نہیں لائے کہ شعبہ کے شاگرد اس روایت کو سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ پر موقوف بتاتے ہیں۔
986

پھر فرماتا ہے کہ کاتب کو چاہیئے کہ جو لکھا گیا وہی لکھے اور گواہ کو چاہیئے کہ واقعہ کیخلاف گواہی نہ دے اور نہ گواہی کو چھپائے، حسن رحمہ اللہ قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ کا یہی قول ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ ان دونوں کو ضرر نہ پہنچایا جائے مثلاً انہیں بلانے کیلئے گئے، وہ کسی اپنے کام میں مشغول ہوں تو یہ کہنے لگے کہ تم پر یہ فرض ہے۔ اپنا حرج کرو اور چلو، یہ حق انہیں نہیں، اور بہت سے بزرگوں سے بھی یہی مروی ہے۔
987

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ میں جس سے روکوں اس کا کرنا اور جو کام کرنے کو کہوں اس سے رک جانا یہ بدکاری ہے جس کا وبال تم سے چھٹے گا نہیں۔ پھر فرمایا اللہ سے ڈرو اس کا لحاظ رکھو، اس کی فرمانبرداری کرو، اس کے روکے ہوئے کاموں سے رُک جاؤ، اللہ تعالیٰ تمہیں سمجھا رہا ہے جیسے اور جگہ فرمایا «يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا» [ 8۔ الانفال: 29 ] ‏‏‏‏ اے ایمان والو اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو وہ تمہیں دلیل دیدے گا، اور جگہ ہے «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ» [ 57-الحديد: 28 ] ‏‏‏‏ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھو وہ تمہیں دوہری رحمتیں دے گا اور تمہیں نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم چلتے رہو گے۔ پھر فرمایا تمام کاموں کا انجام اور حقیقت سے ان کی مصلحتوں اور دور اندیشیوں سے اللہ آگاہ ہے اس سے کوئی چیز مخفی نہیں، اس کا علم تمام کائنات کو گھیرے ہوئے ہے اور ہرچیز کا اسے حقیقی علم ہے۔
988



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.